صحیح بخاری حدیث نمبر 3609 میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے لیے "دجال" کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ "دجال" کا لفظ صرف آخری زمانے والے مسیح دجال کے لیے ہی نہیں بلکہ عام طور پر جھوٹے نبی یا دھوکہ دینے والے کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔
اب عیسائی لوگ نبی اکرم ﷺ کو (نعوذ باللہ) سچا نبی نہیں مانتے اور false prophet یعنی جھوٹا نبی کہتے ہیں۔ اگر ہم لغوی معنی دیکھیں تو "دجال" کا مطلب بھی جھوٹا یا فریب دینے والا ہے۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عیسائی حضرات نبی ﷺ کو "دجال" سمجھتے ہیں؟ یہاں مراد یہ نہیں ہے کہ وہ آپ ﷺ کو وہی "مسیح دجال" مانتے ہیں جو قیامت سے پہلے نکلے گا، بلکہ صرف لغوی طور پر کہ جیسے وہ جھوٹا اور دھوکہ دینے والا کہتے ہیں۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ:
1. شریعت کے اعتبار سے اس بات کا کیا حکم ہے؟
2. اگر کوئی مسلمان یہ لفظ استعمال کرے اور کہے کہ میں نے صرف اس کے لغوی معنی مراد لیے تھے، تو کیا اس کی یہ وضاحت قابلِ قبول ہوگی؟
3. اور کیا ایسے شخص کو گستاخِ رسول ﷺ کہاجاسکتاہے یا نہیں؟
واضح ہو کہ لفظِ"دجّال"دجل سے مشتق ہے اور لغت میں اگرچہ استعمال" جھوٹےاورملمع سازکے لیے ہوتاہے ۔تاہم ،ہمارے عرف میں دجال کے لفظ کااستعمال لغوی معنی کی بجائے ایک مخصوص شخصیت (مسیح دجال )کے لیے اس کااستعمال عام اوررائج ہے۔لہذا،عیسائی مذہب کاسہارالیکرایک مزعومہ تصورکی بنیادپرنبی کریم ﷺکے لیے دجال کالفظ استعمال کرنامسلمانوں کی دل آزاری اوراشتعال انگیزی پرمبنی ہونے کی وجہ سے قطعاًدرست نہیں ،تاہم مذکورلفظ میں چونکہ تاویل کی گنجائش ہے اورجھوٹ وملمع سازکے معنی میں بھی اس کااستعمال ہوتاہے اس لیے اگرقائل نے ازخودنبی کریم ﷺکے لیے لفظ دجال کااستعمال کرنے کی بجائے مسیحی کمیونٹی کی طرف اس کی نسبت کرتے ہوئے یہ لفظ استعمال کیاہوتو اس وضاحت اورتاویل کے بعداس پر کفراورارتدادکاحکم لگاکر گستاخ رسول قرارنہیں دیاجاسکتاہے تاہم آئندہ کے لیے اشتعال انگیزی اورفتنے کے اندیشے کی وجہ سے ایسی گفتگوکرنے سے اجتناب لازم ہے ۔
کماقال اللہ تعالی : وَإِذۡ قَالَ عِيسَى ٱبۡنُ مَرۡيَمَ يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ إِنِّي رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيۡكُم مُّصَدِّقٗا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيَّ مِنَ ٱلتَّوۡرَىٰةِ وَمُبَشِّرَۢا بِرَسُولٖ يَأۡتِي مِنۢ بَعۡدِي ٱسۡمُهُۥٓ أَحۡمَدُۖ فَلَمَّا جَآءَهُم بِٱلۡبَيِّنَٰتِ قَالُواْ هَٰذَا سِحۡرٞ مُّبِينٞ [الصف: 6]
وفی الصحیح البخاري : عن أبي هريرة رضي الله عنه،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (لا تقوم الساعة حتى يقتتل فئتان، فيكون بينهما مقتلة عظيمة، دعواهما واحدة. ولا تقوم الساعة حتى يبعث دجالون كذابون، قريبا من ثلاثين، كلهم يزعم أنه رسول الله.(3/ 1320)
وفيه أيضا: عن أبي هريرة،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إن العبد ليتكلم بالكلمة من رضوان الله، لا يلقي لها بالا، يرفع الله بها درجات، وإن العبد ليتكلم بالكلمة من سخط الله، لا يلقي لها بالا، يهوي بها في جهنم.(5/ 2377)
وفي الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري: (لا يلقى لها بالا) أي لا يلتفت إليها خاطره ولا يعتد بها ولا يبالي بها وهو مقارب لقوله تعالى «وتحسبونه هينًا وهو عند الله عظيم» و (من رضوان الله) أي مما رضي الله تعالى به و (من سخط الله) أي مما لم يرض به قالوا هي مثل الكلمة عند السلطان تصير سببا لمضرة شخص وإن لم ير ذلك أو الكلمة التي يدفع بها مظلمة وإن لم يقصده.(23/ 5)
وفي لسان العرب» : كل كذاب فهو دجال، وجمعه دجالون، وقيل: سمي بذلك لأنه يستر الحق بكذبه.»(11/ 237)
وفي العين : والدجال: المسيح الكذاب، ودجله سحره وكذبه لأنه يدجل الحق بالباطل أي يخلطه، وهو رجل من اليهود يخرج في آخر هذه الأمة.»(6/ 80)
و في الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» : وما كان خطأ من الألفاظ، ولا يوجب الكفر، فقائله مؤمن على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح والرجوع عن ذلك كذا في المحيط.»(2/ 283)
آپ علیہ السلام نور ہیں یا بشر؟ اور کیاآپ علیہ السلام اللہ کے نور سے پیدا شدہ ہیں؟
یونیکوڈ رسالت و نبوت 0